The April contest #2 by the sduttaskitchen|Child marriages!, Pakistan
السلام علیکم ،
انڈیا اور پاکستان یہ دونوں ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔پاکستان بھی انڈیا میں سے ہی نکلا ہے اور انڈیا بھی براعظم ایشیا کی ہی اولاد میں سے ہے۔یہاں دونوں ممالک میں ایک جیسے رسم و رواج پائے جاتے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ انڈیا کا سرکاری مذہب ہندو مت ہے جبکہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔
اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادی کرنا نہ صرف بچیوں پہ ظلم ہے بلکہ ان کے لیے اگے چل کے بہت ساری مشکلات کا باعث بننے کا موجب بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قدامت پرست گھرانوں میں تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر جو گھرانے صحیح طریقے سے اسلام پر عمل پیرا ہیں وہ لوگ کم عمری کی شادیوں کے خلاف ہیں۔
اکثر گھرانے اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ کرتے ہیں اور اس کے بعد جب وہ اپنا اچھا برا سمجھنے کے قابل ہو جائے خاص طور سے سرکاری طور پر شناختی کارڈ بننے کی عمر تک پہنچ جائیں یعنی کم از کم 18 سال کی عمر ہو جائے تو لڑکی اور لڑکے کو اس چیز کا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ شادی کے لیے تیار ہوں۔
ہم سے اپ نے اس ضمن میں کچھ سوالات بھی پوچھے ہیں۔
کیا اپ کم عمری کی شادیوں کی حمایت کرتے ہیں؟اپنی رائے کا اظہار کریں۔
جی نہیں میری نظر میں کم عمری میں شادی کرنا لڑکا اور لڑکی دونوں کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ایک بچہ جو کہ خود ابھی اپنا اچھا برا نہیں جانتا اس کو بڑوں کی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے وہ جب رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائے تو اس کو نہ صرف دوسرے خاندان کے لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ بلوغت کی عمر نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری اندرونی پیچیدگیاں بھی ا جاتی ہیں۔اکثر اوقات کم عمر لڑکیوں کو ماں بنتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔اکثر ان لڑکیوں کی شادی بڑی عمر کے ادمیوں سے کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ لڑکی یا تو معاشرے میں پنپ نہیں پاتی یا پھر معاشرے کے خلاف بغاوت اس کے اندر بڑھ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میں ایسے لوگوں کو کبھی بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتی جو کہ اپنی اولاد کی چھوٹی عمر میں ہی شادی کرنے کی خواہش مند ہوتے ہیں۔مجھے خود بھی اپنی اولاد کو اس قابل بنانے کا شوق ہے کہ وہ اپنا اچھا اور برا جان سکیں اور کم از کم 18 سال کی عمر ایک ایسی عمر ہوتی ہے جہاں پر لڑکا اور لڑکی اپنی زندگی میں خود مختاری کی حد تک ا جاتے ہیں۔بچوں کو اتنا اعتماد ضرور دینا چاہیے کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند کو ظاہر کر سکیں۔
اگر ان کی پسند معاشرے میں ان کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیتی ہے تو ماں باپ کو چاہیے کہ ان کی پسند کا احترام کریں اور اگر ان کی پسند میں کچھ معشرتی اور معاشی اور ذہنی اور اخلاقی برائی نظر ائے تو ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو سمجھائیں اور ان کو اونچ نیچ کا سمجھ دیں۔
شادی سے پہلے والدین کو کن نکات کو ذہن میں رکھنا چاہیے؟اور ہم بچوں کی اسمگلنگ کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟
میری نظر میں والدین کو جو چیز سب سے زیادہ دھیان میں رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ لڑکی ہو تو اس کو اس طرح سے پروان چڑھائیں کہ نہ صرف اس کو اظہار رائے کی ازادی ہو بلکہ اگر اس کا فیصلہ بہترین ہے تو اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔مگر اگر کہیں لڑکی کی خواہش اس کے حق میں برائی کا سودا ہو تو والدین کو چاہیے کہ اس کو سمجھائیں اس طرح سے کہ وہ سمجھ بھی جائے اور اپنے والدین کو برا نہ سمجھے۔لڑکی کو معاشرے کی اونچ نیچ سمجھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کے حق میں نہیں۔اسی طرح لڑکوں کو بھی اظہار رائے کی ازادی کا حق ہونا چاہیے۔ویسے تو لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کی تربیت کا انداز مختلف ہوتا ہے مگر چونکہ ہمارے اسلام میں لڑکی اور لڑکے کو برابر حقوق دیے جانے کا کہا گیا ہے لہذا جہاں لڑکی کو اتنا ازاد اور خوش ماحول دیا جائے وہیں لڑکے کو بھی اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ خاص طور سے خود کرنے کا حق دیا جائے۔
بچوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے مختلف محکمے بنائے جائیں جو کہ اس طرح کے لوگوں کو گرفتار کر سکے جو اس جرم میں ملوث ہیں۔خاص طور سے یہ قانون ساز اداروں کو ان لوگوں کو پکڑنے میں فعال کردار انجام دینا چاہیے۔بچے سوشل میڈیا سے تحریک حاصل کرتے ہیں اور اپنے گھر سے باہر جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
وہ اپنے گھر کی چپقلش سے بچنے کا واحد گھر سے بھاگنا سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہوتی ہے کہ ایسے بچے باسانی شکار ہو جاتے ہیں۔مگر اکثر و بیشتر وہ معصوم بچے بھی اس طرح کے مجرم لوگوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ اپنے گھر سے اسکول کالج کے لیے نکلتے ہیں مگر اس طرح کے مجرم لوگ ان کو قابو کر لیتے ہیں اور ان کی اس مرلنگ شروع کر دیتے ہیں۔
اس سلسلے میں بہت ساری تنظیمیں کام کر رہی ہیں ہمیں چاہیے کہ ان کی ہر لحاظ سے مدد کریں اگر ہم ان کو فری لانسر کے طور پر بھی مدد دیں تو یہ بہترین ہوگا کیونکہ بچے سب کے اچھے ہوتے ہیں۔اور بچوں کے اسمگلنگ ایک نہ صرف غیر قانونی فعل ہے بلکہ اخلاقی طور پر بھی مجرمانہ فعل ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ بچوں کے اندر ایسی باتیں پروان چڑھائیں کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں کے علاوہ کسی اور کے اوپر بھروسہ نہ کر سکیں۔بچوں کو اکیلے گھر سے کم سے کم باہر نکلنے دیں۔خاص طور سے بچیوں کو اس چیز کا شعور دیا جائے کہ گھر سے باہر موجود مرد ہر طرح سے مضر اور خطرناک ہوتے ہیں۔جتنا زیادہ ان سے دور رہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
اکثر اوقات بچے اپنے ہی محلے سے اغوا ہو جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں میں اس چیز کا احساس نہیں پیدا کرتے کہ باہر کی دنیا میں موجود مرد وہ اپ کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا لہذا غیر مردوں سے جتنی دوری بنا کے رکھا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں اپنے نصاب میں بھی اس چیز کو شامل کرنا چاہیے کہ بچوں کو اگہی ہو کہ کسی بھی غیر شخص پر اعتماد نہ کریں اور نہ ہی ان سے بات چیت کریں چاہے وہ غیر شخص ان کے اپنے ہی اسکول کی وین یا سواری کا ڈرائیور ہی کیوں نہ ہو۔بچے اپنے والدین کو ہر بات سے اگاہ کریں تاکہ والدین کو گھر سے باہر ہونے والے واقعات کا بھی پتہ ہو۔
کیا اپ سمجھتے ہیں کہ مناسب تعلیم اس طرح کے غیر قانونی کا منہ سے بچنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے؟
بالکل تعلیم سب کا قانونی حق ہے معاشرتی طور پر بھی اس چیز کی ازادی حاصل ہونی چاہیے کہ ہم لڑکا ہو یا لڑکی سب کو مناسب تعلیم ضرور دلوائیں۔
جب ملک میں مفت تعلیم کا رواج عام ہوگا تو خود بخود ماں باپ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے مدرسہ اور اسکول بھیجنے کے لیے راضی ہوں گے۔مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی نظام بہت مہنگا ہے اور اکثر والدین اپنے بچوں کو محض ویسے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم نہیں دلوا پاتے یہی وجہ ہے کہ والدین یا تو کم عمری میں ہی اپنے بچوں کی شادی کر کے اپنے بچوں کو بوجھ سمجھ کے اتار دیتے ہیں یا پھر چھوٹے بچوں سے ہی کمائی کروانا شروع کر دیتے ہیں۔جو کہ والدین خود بھی غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اس وجہ سے وہ اپنی اولاد کو بھی تعلیم دلوانا ضروری نہیں سمجھتے۔اور بچوں کو محض کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں یا تو چائلڈ لیبر کے نام سے بچوں کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے یا بچوں کو کم عمری میں ہی رشتہ ازدوات سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔
کم عمری کی شادی سے بچوں کے اندر ناظرین جسمانی طور پر کوئی چیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں بلکہ وہ ذہنی نہ پختگی کی وجہ سے اکثر توڑ پھڑ کا شکار ہو جاتے ہیں اور معاشرے میں ان کی حیثیت بہت ہی ناگوار ہو جاتی ہے۔لڑکا کم عمری میں شادی کی وجہ سے جلد ہی خانگی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچپن کو صحیح طریقے سے انجوائے بھی نہیں کر پاتا اور نہ ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ خوشگوار ماحول میں زندگی گزار سکتا ہے کیونکہ چھوٹی عمر میں جب اس کے سر پر گھر کا بوجھ پڑ جائے گا تو وہ کہاں اپنے بچپن کو انجوائے کر سکے گا۔یہی حال لڑکی کا ہے کہ جب لڑکی کو چھوٹی عمر میں شادی کی ذمہ داریاں اٹھانی پڑتی ہیں تو نہ تو وہ اپنے بچپن کو صحیح سے گزار پاتی ہے اور نہ ہی وہ معاشرتی طور پر اس قابل ہوتی ہے کہ وہ شادی کے بعد کی ذمہ داری اور رشتوں کو سنبھال سکے یہی وجہ ہے کہ یہ شادی لڑکا اور لڑکی دونوں کے لیے ہی نامناسب ہے۔
] Source](https://images.app.goo.gl/54FspnxSHSyUTGes8)
اپنی ناعیت کے اس زبردست مقابلے میں میں اپنے کچھ ساتھیوں کو بھی دعوت دوں گی۔@maazmoid123.@uzma4882,@suryati
প্রথমেই আপনাকে অসংখ্য ধন্যবাদ প্রতিযোগিতায় অংশগ্রহণ করার জন্য আমিও আপনার সাথে সহমত পোষণ করছি বাল্যবিবাহ কখনোই ভালো কিছু বয়ে নিয়ে আসে না সেইসাথে বাবা মায়ের যে বিষয় গুলো অবশ্যই মেনে চলা প্রয়োজন সেই বিষয়গুলো আপনি চমৎকার ভাবে আমাদের সাথে শেয়ার করেছেন আসলে শিক্ষার মাধ্যমে এই সমস্যাগুলো আমরা সমাধান করতে পারি। প্রতিযোগিতায় আপনার সফলতা কামনা করছি ভালো থাকবেন।
میری پوسٹ پڑھنے کا شکریہ۔واقعی تعلیم کا حصول بہت سارے مسئل کا حل ہے۔
The idea of marrying early stems from culture and personal beliefs. It is disadvantageous to children, particularly young girls who are barely equipped with the knowledge and experience to survive without the help of others.
It marvels me when I see parents marry off their daughters at a young age. We could attribute it to lack of education or clearly poverty and an unchecked desire to survive off children.
The idea that men are dangerous is something I believe needs review. We should ask ourselves, "If men are dangerous, what led to it?" "How can parents train them to become law-abiding citizens just as the girls?"
I believe if we must fix the issue, then it will be best to take practical steps to reduce the atrocities. Protecting girls or encouraging them to act paranoid is never enough.
Parents have a huge role to play in protecting and guiding their children. The creator gave these young ones to them for a reason. Education can influence them positively too.
کچھ لوگوں کا تعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وہ ذاتی طور پر جتنے برے ہوتے ہیں وہ تعلیم کے پردے میں چھپ کر بھی ویسے ہی رہتے ہیں۔
Sure.
But education can come in various ways beyond the classroom. This is why we have social media to create more enlightenment.
People love following trends and doing what others do just to fit in. So, hopefully, with education through these other platforms, they might be compelled to change.
جو شخص تبدیل ہونا چاہتا ہے صرف وہی تبدیل ہو سکتا ہے چاہے کسی بھی قسم کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوز کر لے اور چاہے کسی بھی قسم کی تعلیم حاصل کرنے۔جس کے اندر اپنے اپ کو بدلنے کی خو نہیں ہوتی وہ کبھی بھی نہیں بدلتا اس طرح کے لوگ معاشرے کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں۔