Una imagen, una historia"Aliza's surgery, Pakistan
علیزہ اپنے افس میں کافی ہوشیار اور ذہین مشہور تھی۔ہر دل عزیز اور ہر مسئلے کا حل منٹوں میں نکالنے والی۔کافی دنوں سے سر کے درد کی تکلیف کو برداشت کر رہی تھی۔بنا کسی سے اظہار کیے۔جب زیادہ درد ہوتا تو پین کلر لے لیتی مگر اپنے سر کے درد کا ذکر کسی سے نہیں کر رہی تھی۔کہ کہیں سب پریشان نہ ہو جائیں۔حالانکہ وہ سب اس کے دوست اور ہمدرد تھے۔
ابھی تک اس نے اپنے درد کا کسی ڈاکٹر سے علاج کرنے کا نہیں سوچا تھا۔اور اس کا درد تھا کہ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔اج صبح جب وہ اور پھر پہنچی تو اس کی انکھیں درد کی وجہ سے بند ہو رہی تھی۔مگر احساس ذمہ داری کی وجہ سے وہ افس میں موجود تھی۔کمپیوٹر پہ کام کرتے ہوئے اچانک اتنا شدید اٹیک ہوا کہ وہ وہیں میز بر سر ٹکا کر بے ہوش ہو گئی۔عالیہ جو پاس ہی بیٹھی کام کر رہی تھی ایک دم سے ایک گھبرا کر اس کے پاس ائی۔اس کو اوازیں دیں مگر علیزہ اپنے ہوش میں نہیں تھی کہ اس کی بات کا جواب دیتی۔اتنی دیر میں سرفرہان بھی پاس اگئے اور انہوں نے جو ان دونوں لڑکیوں کو ایک ہی ٹیبل پہ جمع دیکھا تو ان کے پاس ا کے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔جواب میں عالیہ نے علیزہ کو ہلانے کے کوشش کی تو نیچے گر گئی۔اب تو سب ہی گھبرا گئے تھے فورا ہی ایمبولنس کو کال کی گئی اور علیزہ کو لے کر ہاسپٹل پہنچا گیا۔
ایمرجنسی میں داخل ہوتے کے ساتھ ہی ڈاکٹرز نے فورا اپریشن تھیٹر کی طرف لے جانے کا مشورہ دیا اور ڈاکٹر عمیر رخ کر پیشنٹ کے ساتھ انے والے ساتھیوں کو اس کی حالت کے بارے میں مبتلا کرنے لگے۔اس کے گھر والوں کو بلانے کا کہا گیا کیونکہ سچویشن کافی نازک تھی۔اور فوری اپریشن کا خدشہ تھا۔جب علیزا کے گھر والوں سے رابطہ کیا گیا تو اندازہ ہوا کہ علیزہ کے بڑے بھائی انگلینڈ اور دوسرے بھائی یو کے ہوتے ہیں۔بالاخر اس کے ساتھیوں نے اور سر فرحان نے خود ہی اپریشن کرنے کی اجازت دی اور ڈاکٹرز کو ہر طرح کی ذمہ داری خود اٹھانے کا کہا۔اب ڈاکٹر اپریشن ٹیبل پر علیزہ کو اپریشن کے لیے تیار کر رہے تھے۔اور وہ دنیا و مافیا سے بے خبر اپریشن روم میں موجود تھی۔
ڈاکٹر عمیر بھی اپنی ٹیم کے پاس ا چکے تھے اور انہوں نے اپریشن اسٹارٹ کرنے کا عندیہ دے دیا جیسے ہی اپریشن سٹارٹ ہوا علیزہ کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی اس کا بلڈ پریشر شوٹ کر رہا تھا۔اس کے برین میں ٹیومر تھا۔اور کافی حد تک پھیل چکا تھا جس کی وجہ سے اپریشن ناگزیر تھا۔اپریشن کے دوران جب ڈاکٹر عمیر نے اسکیلبل طلب کیا تو ڈاکٹر ہنا نے ڈاکٹر عمیر کو کہا کہ نہیں ڈاکٹر اس کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ قینچی کے کٹ سے ہی کام ہو جائے گا۔اتنی دیر میں اسسٹنٹ ڈاکٹر، ڈاکٹر فرہاد بھی اگئے۔سب کے صلح مشورے سے اسکیل پل کے بجائے کنچی کے کٹ سے ہی کام چلایا گیا مگر ٹیومر اتنا زیادہ پھیل چکا تھا کہ اس کیمپل کی ضرورت بھی پڑنی ہی تھی۔اچانک ہی علیزہ کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی اور اس کے دل کی دھڑکنیں بند ہونا شروع ہو گئیں۔سارے ڈاکٹرز ہائی الرٹ کی پوزیشن پہ اگئے۔سب کی زبان پر درود تھا اور اپریشن روم میں صرف مشینوں کی اوازیں ارہی تھیں تمام سرجن اپنی پوری کوشش میں مصروف تھے کہ کسی طرح سے احتیاط کے ساتھ ٹیومر کو ریموو کیا جا سکے اور علی زا کی جان بچائی جا سکے۔
یہ اپریشن تقریبا تین گھنٹے چلتا رہا۔ایک وقت تو ایسا بھی ایا کہ ڈاکٹرز بالکل نا امید ہو چکے تھے دل کی دھڑکن نہ ہونے کے برابر تھی اور ٹیومر کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں تھی۔علیزہ کا سر کھلا ہوا تھا اور خون کی کمی بہت تیزی سے واقع ہو رہی تھی جلد از جلد خون کا انتظام کیا گیا اور علیزہ کی کنڈیشن کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی۔بالاخر تمام ڈاکٹرز کی محنت رنگ لائی اور ٹیومر کو احتیاط کے ساتھ کاٹ کے نکال دیا گیا مگر ابھی بھی علیزہ کی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی۔
اپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر عمیر باہر ائے ان کو دیکھ کر سر فرحان زمین سارے ساتھی پاس اگئے اور علیزہ کی خیریت دریافت کرنے لگے۔ڈاکٹر عمیر نے امید کی ڈور ہاتھ میں پکڑا کے دعا کرنے کا کہا جس پر اس کی بیسٹ فرینڈ عالیہ رونا شروع ہو گئی اور اپنے اللہ کے اگے سر جھکا کے سجدے کی حالت میں چلی گئی اور اس سے اپنے دوست کی زندگی مانگنے لگی۔
اس وقت وہ کولیگز نہیں بلکہ ایک فیملی کی طرح پیش ا رہے تھے تمام کولیگز علیزہ کے لیے اتنے پریشان اور دعا گو تھے جیسے وہ ان کی بہن ہو۔سر فرحان ایک باپ کی طرح مشفق اور اداس محسوس ہو رہے تھے کیونکہ علیزا پورے افس میں سب کی ہی پسندیدہ ساتھی تھی۔بالاخر جب تین گھنٹے لگاتار ڈاکٹرز نے اپنی جان توڑ محنت کی اور علیزہ کی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے تو سب کے چہرے پر شکر کا کلمہ دوڑ گیا۔فورا ہی صدقات اور خیرات ادا کی جانے لگی۔
سچ ہے
جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے
جس وقت علیزہ کو ہوش ایا وہ ہاسپٹل کے ائی سی یو کے بیڈ پر تھی۔بہت حیرانی سے چاروں طرف دیکھ کے اس نے اپنے دوست عالیہ سے دریافت کیا کہ اسے کیا ہوا تھا۔جس پر عالیہ نے اس کو تسلی دی کہ اسے کچھ نہیں ہوا بس وہ بے ہوش ہو گئی تھی اسی وجہ سے اس کو ہاسپٹل لے کر ائے ہیں۔اور اس کو زیادہ بات کرنے سے منع کر کے عالیہ اپنے انسو روکتے ہوئے باہر چلی گئی۔باہر جا کے اس نے شکرانے کے نفل ادا کیے اور اللہ سے اپنی دوست کی زندگی بچ جانے کا شکر ادا کیا۔
میں توقع کرتی ہوں کہ اپ لوگ میری کہانی سے متاثر ہوئے ہوں گے۔میں اپنے اسٹیمیٹ کے کچھ خاص ساتھیوں کو بھی اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دوں گی۔@uzma4882,@maazmoid123,@sadaf02
Your post is manually rewarded by the
World of Xpilar Community Curation Trail
BottoSTEEM OPERATED AND MAINTAINED BY XPILAR TEAM
BottoSteem
Robust Automations on STEEM Blockchain using the Power of AI
https://steemit.com/~witnesses vote xpilar.witness
"Become successful with @wox-helpfund!"
If you want to know more click on the link
https://steemit.com/@wox-helpfund ❤️
https://x.com/STEEMITENT9255/status/1934459239428165665?t=5U1FpY_yLfAwuex2dDwfOQ&s=19