Nuevo Concurso: "Padres complicados e hijos caprichosos", Pakistan
السلام علیکم ،
یہ واقعی ایک بہترین مقابلہ ہے اور میں کافی دنوں سے اپنے احساسات کو کسی کے ساتھ شیئر کرنا چاہ رہی تھی مجھے اج کل یہی معاملہ درپیش ہے جو اس مقابلے میں موضوع بنایا گیا ہے۔
واقعی بچوں کے اوپر ماں باپ کے ازدواجی تعلقات اور ان کے رویے بہت اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت بننے اور بگڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ماں باپ بچوں کے رول ماڈل ہوتے ہیں اگر ان کا کردار ان کی زندگی میں اچھا اثر کر رہا ہے تو بچہ اپنا شریک حیات بہترین منتخب کر سکتا ہے مگر اگر ماں باپ کا کردار ہی بچوں کی زندگی پہ منفی اثرات ڈال رہا ہو تو بچوں کو بھی اپنا شریک حیات میں منتخب کرنے میں دشواری پیش اتی ہے اور وہ جہاں سے پیار ملتا ہے وہیں پہ ہی لپک جاتے ہیں اب چاہے اس پیار کی حقیقت اصلی ہو یا نقلی۔
بطور والدین کیا ہمیں اپنے بچوں کی محبت کا احترام کرنا چاہیے؟یا اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے؟
ہمیں اکثر و بیشتر زندگی میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا۔مثلا جب ہماری اولاد جوان ہو جاتی ہے اور وہ اپنی شریک حیات کو منتخب کرنے کھڑی ہوتی ہے تو ایسے وقت میں اکثر و بیشتر ماں باپ کے نظریات مختلف ہوتے ہیں جبکہ بچے اپنی پسند مختلف بندے میں ڈھونڈتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اگر اپ لڑکے کے لیے لڑکی پسند کرنے جا رہے ہیں تو اس کی ماں اور نانی کو دیکھیں کیونکہ لڑکی زیادہ تر اپنی ماں کو ہی کاپی کیا کرتی ہے۔مگر جب بچے اپنی زندگی کا ساتھی خود ہی چن لیں تو ایسے میری ماں اور نانی کا کردار دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
میں خود بھی جوان بچوں کی ماں ہوں اور مجھے اندازہ ہے کہ میری بچی کے اندر میرے اندر سے کون سی کوالٹیز ائی ہیں۔اور وہ زندگی کو کس نقطہ نظر سے دیکھتی ہے؟ اس کو اپنی زندگی کا ساتھی کیسا چاہیے؟
ان معاملات میں جھوٹ کیوں غالب ہوتا ہے؟
میرے خیال میں اکثر اوقات بچوں کو اس چیز کا اندازہ نہیں ہوتا کہ والدین ان کی پسند کو ذراہیں گے یا ناپسند کر دیں گے لہذا وہ اپنے والدین کو ہر صورت راضی کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے شریک سفر میں وہ خوبیاں بھی بتاتے ہیں جو کہ اس میں سرے سے موجود نہیں ہوتی۔اور اس کو دنیا کا کامیاب ترین انسان بنا کر سامنے لاتے ہیں تاکہ والدین کے سامنے سے انکار کی گنجائش ختم ہو جائے۔
بچوں کی خواہش صرف یہی ہوتی ہے کہ ہر صورت ان کی فرمائش کو اور ان کی پسند کو ذرا ا جائے۔اسی وجہ سے ان کو جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے اور وہ ہر اس طرح کا حیلہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے والدین راضی ہو جائیں۔
کیونکہ اکثر اوقات انہوں نے اپنے والدین کو جن باتوں پر جھگڑتے ہوئے دیکھا ہوتا ہے وہ باتیں ان کو اپنے شریک سفر میں بھی نظر ارہی ہوتی ہیں لہذا وہ اس خوف سے کہ کہیں ساری زندگی وہ ایک دوسرے کی انہی خامیوں پر لڑتے ہوئے گزار چکے ہیں اس چکر میں اپنی اولاد کی پسند کو مسترد نہ کر دیں بچے جھوٹ کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر لحاظ سے اپنے شریک سفر کی خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر اپ کی بیٹی گھر سے چلی جاتی ہے تو اس کے والدین اس کے بوائے فرینڈ کو کیوں قبول نہیں کرتے؟حضور وار کون ہے؟
ویسے تو میری ہمیشہ سب والدین کے لیے اور اولاد کے لیے یہی دعا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے والدین کو چھوڑ کر نہ جائیں اور ہمیشہ بہترین کی تلاش بھی بھٹکتے نہ پھریں مگر اکثر اوقات ایسا نہیں ہوتا۔اور لڑکیوں کو شریکے سفر کی صورت میں جو شخص پسند اتا ہے وہ عموما ایسا ہی ہوتا ہے جو ان کو ہر لحاظ سے پرفیکٹ محسوس ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو چھوڑنے کو تیار ہو جاتی ہیں اور ان ماں باپ کو چھوڑ کے چلی جاتی ہیں جنہوں نے ان کو بچپن سے پالا اور بڑا کیا ان کی تربیت میں اپنی زندگی گلا دی۔اپنا عیش ارام ختم کر دیا۔ان کو یہ ساری باتیں ایک سائیڈ پر رکھ کر اپنے شریک سفر کی صورت میں موجود شخص سے جو وابستگی ہوتی ہے وہ ہی سب سے زیادہ اہم نظر اتی ہے۔
میری نظر میں ان سب وجوہات کی ذمہ داری ماں باپ کے اوپر ہی جاتی ہے۔بچپن سے بچی جو ماحول دیکھتی ہے اگر وہ ماحول اس کے ذہن کو پسند نہیں اتا تو وہ لازمی اپنے گھر کے ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لیے ایسے شخص کا سہارا ڈھونڈتی ہے جو اس کو اس ماحول سے دور لے جائے اور ایک الگ ہی دنیا میں بسا لے۔کیونکہ ماں باپ اپنی لڑائی میں بچوں کی سوچ کو بھول جاتے ہیں کہ بچے کیسا اثر لے رہے ہوں گے۔اب جب میری اولاد جوان ہو چکی ہے اور ان کی زندگی کے فیصلے کرنے کا وقت ایا ہے تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے بھی زندگی میں بہت سارے ایسی غلطیاں کی ہیں جن کا اثر ہماری اولاد پر پڑ رہا ہے۔
اب جب کہ میری بیٹی جوان ہے اور اس کے لیے رشتے انا شروع ہو چکے ہیں تو وہ ہر دفعہ یہی کہہ دیتی ہے کہ اس کو اس رشتے میں کوئی نہ کوئی کمی اور خرابی نظر ارہی ہے۔اس کی وجہ وہ صرف اور صرف ہمارے ازدواجی تعلقات کو گردانتی ہے اور ہمیشہ وہ ایک ہی جملہ کہتی ہے کہ میں نے اپ لوگوں کو اس بات پر ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے ہوئے پایا ہے اور یہ بات اس شخص میں بھی موجود ہے جس کو اپ میری زندگی کے لیے جو نہ رہے ہیں۔
اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنی لڑائی میں اور جھگڑے میں اپنے بچوں کا احساس کر لیتے تو اج میری بچی کی ذہنی کیفیت یہ نہ ہوتی اور وہ ہماری پسند کا احترام کرتی۔
اگر اپ کی نابالغ بیٹی حاملہ ہو جائے تو اپ کا کیا فیصلہ ہوگا؟وضاحت کریں۔
یہ ایک بہت ہی ناپسندیدہ صورتحال ہے۔ہماری نابالغ بیٹی کے حاملہ ہو جانے میں ہمارا اپنا ہی سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ہم عموما یہ سمجھتے ہیں کہ کسی نے اس کو بہکایا پھسلایا اسی وجہ سے وہ اج اس حال کو پہنچی ہے۔حالانکہ کوئی بھی لڑکی کسی بھی مرد کو اپنے پاس انے کی اجازت اس وقت تک نہیں دیتی جب تک وہ خود سے راضی نہ ہو۔
جب بھی لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو ہی وہ نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو جاتی ہے مگر اکثر و بیشتر ایسا نہیں ہوتا۔
کوئی بھی لڑکا یا مرد اس وقت تک کسی بھی لڑکی کو ہاتھ نہیں لگاتا جب تک کہ وہ لڑکی بہ خوشی خود اس کو اپنا اپ نہ سونپ دے۔
یہ بہت ہی ناخوشگوار صورتحال ہوتی ہے کیونکہ عموما لڑکی ایسے ہی شخص کو اپنا اپ سونپتی ہے جس کے اندر وہ ایسی باتیں پاتی ہے جو اس کو اپنے گھر میں اپنے والدین میں سے کسی سے بھی نہ ملی ہوں۔اس کی ذہنی اور جسمانی تشنگی اس کو غیر مرد کے ساتھ انٹر ایکشن کرنے کو برازی کر دیتی ہے۔
اگر خدانخواستہ کسی گھر میں ایسا معاملہ پیش اتا ہے تو والدین کو چاہیے کہ اول تو اس شخص کا سامنا کریں جس سے ان کی بیٹی حاملہ ہوئی۔اور اس شخص کو اپنی بیٹی کے ذمہ داری اٹھانے پر راضی کریں تاکہ ائندہ کی زندگی میں ان کی بیٹی کو اور ان کو خود معاشرے کے تنفر کا شکار نہ ہونا پڑے۔مگر زیادہ تر لڑکے اور مرد ایسی صورتحال میں جان چھڑا کے چلے جاتے ہیں جہاں ان کے اوپر ذمہ داری کا بوجھ انا شروع ہوتا ہے۔
ایسی صورت میں والدین کو ہمیشہ یہی ایک راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
ورنہ اکثر اوقات ماں باپ اپنی بیٹی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے گھر میں بند کر دیتے ہیں اور اس کا معاشرتی تعلق ختم کر دیتے ہیں۔اس وجہ سے وہ لڑکی اور زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔اور نو بت اکثر بیشتر یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنی جان لینے پر امادہ ہو جاتی ہے یا پھر ڈپریشن کا شکار ہو کر اس کو نفسیاتی دورے پڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
اولاد دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے اس کو اس طرح ضائع نہیں کیا جا سکتا لہذا ہمیں اپنے بچوں کے لیے بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اگر ہمارے بچوں کی کہیں پسند مختلف نظر ائے تو یا تو ان کو پیار سے دنیا کی اونچ نیچ سمجھائیں نہیں تو پھر ان کی پسند کو اہمیت دیں اور شریک سفر کے طور پر منتخب کیا جانے والا شخص ہمیں بھی قبول کرنا چاہیے۔
کیا اپ اسے اس کے ساتھی کے ساتھ جانے دیتے ہیں؟کیا اپ اسے روکتے ہیں اور ہر چیز کا ذمہ دار بناتے ہیں؟
اگر وہ شخص جس کو ہماری بیٹی نے زندگی کا ساتھی چنا ہے ۔اس سے ملنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص واقعی اس قابل ہے کہ وہ ہماری بیٹی کو خوش رکھ سکے گا تو ہمیں اپنی بیٹی کی پسند کا احترام کرنا چاہیے اور اس کی شادی اس شخص کے ساتھ کر دینی چاہیے جس کو وہ پسند کرتی ہے۔بہرحال زندگی بچوں نے گزارنی ہے وہ اپنی چاہت کو جب اہمیت دیتے ہوئے دیکھیں گے تو والدین کا احترام ان کے دل میں بڑھ جائے گا۔مگر اگر اس شخص کے اندر وہ خصوصیات موجود نہیں جو ایک شخص کے اندر موجود ہونی چاہیے جو کہ اپنی بیوی کو خوش رکھ سکتا ہو تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی بیٹی کو زندگی کی اونچ نیچ سمجھائیں اور اس شخص کے اندر موجود خامیوں کو بہتر فریضے سے بیٹی کے سامنے لے کر ائیں تاکہ وہ اپنی ضد سے کنارہ کش ہو جائے۔
ہم کسی بھی طور پر اپنی بیٹی کو ایسے معاملے میں مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ اس طرح کرنے سے وہ اور مزید باغی ہو سکتی ہے جوان ہوتی ہوئی اولاد کی ذہنیت ماں باپ کی ذہنیت سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔وہ دنیا کی اونچ نیچ کو نہیں جانتے بس اپنی ذہنی اور دلی تشفی چاہتے ہیں۔
لہذا ہمیں اپنی بچی کی پسند کا احترام کرتے ہوئے اس شخص کو اچھے طریقے سے ٹٹولنا چاہیے جس کے ساتھ اس نے زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہر طرح سے یہ جانچ پر رکھ کرنے کے بعد اگر کوئی ایک ادخامی نظر اتی بھی ہے تو ایسے میں اس کو صرف نظر کر کے بیٹی کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے اور اس کی پسند کو اہمیت دینی چاہیے۔
میں امید کرتی ہوں کہ اپ میرے نقطہ نظر کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے اور میری رائے سے اتفاق کریں گے شکریہ۔
اس خوبصورت مقابلے میں میں اپنے کچھ ساتھیوں کو بھی دعوت دینا چاہتی ہوں۔