Incredible India monthly contest of May #1| How do we control the loneliness of our parents? Pakistan
السلام علیکم ،
اللہ تعالی نے والدین کو ایسی نعمت بنایا ہے جو کہ کسی بھی قسم کے تعریف کے محتاج نہیں۔جب انسان والدین کی رتبے پر پہنچتا ہے تو ہی انہیں اپنے والدین کی قدر محسوس ہوتی ہے۔اس سے پہلے تو وہ اپنے ماں باپ کے پیار اور ان کی محبت کو اپنا حق سمجھ کے وصول کرتا ہے۔حتی کہ ماں باپ کی قربانیوں کو بھی کسی اہمیت میں نہیں لاتا۔
مگر جب اس کی اپنی شادی ہو اور اس کو خود اولاد کا تجربہ ہو تو اس کو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ماں باپ نے ہمارے لیے کتنی پریشانیاں اور تکالیف سہی ہیں۔ماں باپ میں سے کوئی ایک بھی ہمارے پاس موجود ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی قدر کریں اور جہاں تک ممکن ہو ان کی اسائش ارام اور بوریت کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
ماں اگر جنت ہے تو باپ اس کا دروازہ لہذا ہمیں دونوں کو راضی رکھنا ضروری ہے۔اگر ماں باپ راضی ہو جائیں تو دنیا بھی جنت بن جاتی ہے اور اخرت میں تو جنت کا حصول پکا ہو ہی جاتا ہے۔
اس سلسلے میں اپ نے ہم سے کچھ سوالات کیے ہیں میں ان کے جوابات دینا پسند کروں گی۔
کیا اپ کا خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ والدین اپنے بچوں کی موجودگی کی خواہش پیدا کرتے ہیں؟
والدین ہوں یا بچے دونوں کے لیے ایک دوسرے کی موجودگی بہت اہمیت کا حامل ہوتی ہے۔اور والدین چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھے ہوتے چلے جاتے ہیں لہذا انہیں اپنے بچوں کی موجودگی پسند اتی ہے۔جبکہ بچے دنیاوی دوڑ میں اگے نکلنے کے چکر میں ماں باپ کو وقت نہیں دے پاتے اور ان کے پاس بیٹھنا ان کے ساتھ وقت گزارنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔اکثر بچے اپنے والدین کو چاہنے کے باوجود وقت نہیں دے پاتے اس کی وجہ سے صرف ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی دوڑ ہے۔اج کل ہر شخص چاہے وہ نوجوان لڑکا ہو یا لڑکی تمام لوگ پیسہ کمانے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے اگے نکلنا چاہ رہا ہے اب اس سلسلے میں وہ زیادہ سے زیادہ وقت اپنا تعلیم اور معاش کو دیتا ہے جس کی وجہ سے اگنور ہونے والی ہستی ان کے والدین ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی موجودگی کو پسند کرتے ہیں۔اور جب ماں باپ اپنے بچوں سے وقت دینے کو کہتے ہیں تو بچے پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنی مصروفیات میں سے کیسے وقت نکالیں اور ان کے پاس کیسے بیٹھیں۔
##۔ ہم اپنے والدین کی تنہائی پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟
انسان کو اپنی خواہشات اور ضروریات کو اپنے اختیار میں رکھنے کی بہت ضرورت ہے۔اسی طرح وہ اپنے والدین کو وقت بھی دے سکتا ہے اور ان کی تنہائی کو بھی دور کر سکتا ہے۔وہ صرف اسی طرح ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی ضروریات زندگی کو حد سے زیادہ نہ بڑھائے تاکہ ان کو حاصل کرنے کے لیے اس کو زیادہ بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے جب اس کے پاس وقت ہوگا تو وہ ضرور اپنے والدین کے پاس بیٹھے گا۔
ایک دوسری چیز جو اج کل ہماری معاشرے میں بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے وہ سوشل میڈیا ہے۔انسان ہر وقت مختلف قسم کے گیجٹس کو استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کی نیٹ ورک پر ان ہوتا ہے مگر اپنے ارد گرد موجود لوگوں میں اؤٹ ہو چکا ہوتا ہے۔کی وجہ ہے کہ ساتھ بیٹھنے کے باوجود وہ ایک دوسرے کو وقت نہیں دے پاتے اور ایک دوسرے کا حال چال نہیں جان سکتے۔
اس کے علاوہ کچھ لوگوں میں خودغرضی بھی کافی حد تک موجود ہوتی ہے اور انہیں اپنی تکالیف اور اپنی پریشانیاں تو بہت بڑی نظر اتی ہیں مگر دوسروں کی تکالیف اور پریشانی کو وہ کسی خاطر میں نہیں لاتے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگوں کے والدین وقت سے پہلے ہی اداسی کا شکار ہو کر اس دنیا سے جا چکے ہوتے ہیں وہ صرف یہی وجہ کو حد سے زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی اولاد ان کو توجہ نہیں دیتی۔
اس سلسلے میں حالانکہ سوشل میڈیا پر بھی اس طرح کی معلومات فراہم کی جاتی ہیں جن سے والدین کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے مگر اج کی نسل یہ سب کچھ محض انٹرٹینمنٹ کے لیے دیکھتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ بھول جاتی ہے میں اپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک اشتہار شیئر کرتی ہوں اپ بھی اس کو دیکھیں اور سمجھیں کہ واقعی ہماری اولاد اپنے والدین سے کتنی دور ہو گئی ہے۔
##۔ والدین کی تنہائی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
پیسہ ہر چیز کا علاج نہیں ہوتا۔ہم اپنے بچوں اور اپنے والدین کو دنیاوی اسائشات مہیا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے وری و ذمہ ہو گئے ہیں۔دراصل پیسے سے توجہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔
دراصل والدین کی تنہائی کی سب سے بڑی وجہ ان کی اولاد کا پیسے کے حصول میں ہمہ وقت مصروف رہنا ہے۔
ایک دوسرے کی حرص میں ا کر انسان حلال اور حرام کی تمیز بھول جاتا ہے اور وہ ہر ذریعے سے پیسہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کو تمام خواہشات اور ضروریات پوری کرنا اپنا فرض لگتا ہے۔جب انسان اتنا زیادہ خواہشات کا غلام بن جاتا ہے تو اس کو نہ صرف والدین بلکہ اپنی اولاد کو وقت دینا بھی نہیں یاد رہتا۔
ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ اپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ بانٹنے سے جو جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ پیسے کی زیادتی سے پورا نہیں ہوتا۔
اولاد اپنے والدین کو موبائل فون اور لیپ ٹاپ دے کر سمجھتی ہے کہ ہم نے ان کی تنہائی کو دور کر دیا جب کہ اگر وہ خود اتنے سارے اور اتنے مہنگے گیجٹس دینے کے بجائے اپنا وقت اپنے والدین کو دے تو والدین کو ان گیجٹس کی بالکل بھی ضرورت نہ پڑے۔اور نہ ہی وہ ان سے خوش ہوں۔
اپ لوگ یقین کریں نہ کریں لیکن یہ ہے ہمارے معاشرے کا المیہ کہ واقعی ہم لوگ اپنے والدین کو وہ توجہ نہیں دیتے جس کے وہ حقدار ہیں جبکہ ہم نے اپنے بچپن میں ان سے ان کی توجہ ان کا وقت ان کی محنت ان کی مشقت ہر چیز اپنا حق سمجھ کے وصول کیا اب جب ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے تو ہم سب کچھ بھلا کے اپنی دنیا کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ اگر ہمیں دنیا اور اخرت کو جنت بنانا ہے تو ہمیں اپنے والدین کو راضی کرنا ہوگا ان کی خوشی میں ہی ہماری خوشی ہے۔
اس خوبصورت مقابلے میں میں اپنے کچھ ساتھیوں کو بھی شرکت کی دعوت دینا چاہتی ہوں۔
@hammd,@muhammad,@farhan
আপনার লেখাটি সত্যিই মন ছুয়ে যাওয়ার মত। আপনি খুব সুন্দর ভাবে বোঝাতে পেরেছেন যে মা-বাবার একাকীত্ব শুধু টাকা পয়সা দিয়ে নয় সময় আর ভালোবাসা দিয়েই দূর করা সম্ভব। আজকে সমাজে এই বার্তাটি অত্যন্ত প্রয়োজনীয়। আপনার চিন্তা ভাবনা এবং উপস্থাপন সত্যিই প্রশংসনীয়। আপনার জন্য অনেক অনেক শুভকামনা ও ভালোবাসা রইলো।
مجھے خوشی ہوئی کہ اپ کو میری بات سمجھ میں ائی میں خود بھی ماں ہوں اور میری اپنی اولاد سے یہی خواہش ہے کہ میرے بڑھاپے میں وہ میری تنہائی کو سمجھیں اور مجھے کبھی اکیلا نہ محسوس ہونے دیں