حبیب جالب کی شاعری ہمیشہ سے عوام کے دلوں کی آواز رہی ہے

in #life26 days ago

حبیب جالب کی شاعری ہمیشہ سے عوام کے دلوں کی آواز رہی ہے، اور ان کے یہ اشعار بھی اسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ "وارث شاہ، بھٹائی، دونوں مِل کر روتے ہیں، اور رکھوالے دیس کے لمبی تان کے سوتے ہیں،" تو یہ صرف ایک شاعرانہ بیان نہیں، بلکہ ایک گہرا طنز ہے اس نظام پر جہاں عوام کے دکھوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وارث شاہ اور بھٹائی، جو پنجاب اور سندھ کے عظیم صوفی شاعر ہیں، اپنی شاعری میں انسانیت کے دکھ درد کو بیان کرتے ہیں۔ ان کا رونا اس بات کی علامت ہے کہ آج بھی معاشرے میں ناانصافی اور ظلم موجود ہے، اور وہ لوگ جو اس دیس کے رکھوالے ہیں، وہ گہری نیند سو رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جہاں حکمران طبقہ عوام کی مشکلات سے بے خبر ہے، اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے

پھر وہ کہتے ہیں، "اُن کے چہرے زرد زرد ہیں، اُن کی آنکھیں ہیں نَم نَم، اپنے خُون پسینے سے، جو جیون بوتے ہیں،" یہ ان محنت کشوں کی بات ہے جو اپنی جان توڑ محنت سے اس دیس کو سنوارتے ہیں۔ ان کے چہرے پر تھکن اور مایوسی ہے، ان کی آنکھوں میں آنسو ہیں، کیونکہ ان کی محنت کا پھل انہیں نہیں ملتا۔ وہ اپنی زندگی کا خون پسینہ ایک کر کے اس معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں محرومیوں اور ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک دل دہلا دینے والی حقیقت ہے کہ جن کے دم سے یہ ملک چلتا ہے، وہی سب سے زیادہ پریشان اور مظلوم ہیں۔

"اِک دُوجے کو بُرا بَھلا کہنے کے سِوا کُچھ کام نہِیں، کیا سارے جگ میں، نیتا ایسے ہی ہوتے ہیں؟" یہ سوال ہمارے سیاسی رہنماؤں پر ایک کڑا طنز ہے۔ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں، لیکن عوام کے مسائل حل کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ جالب کا یہ سوال عالمی سطح پر سیاستدانوں کے کردار پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ کیا ہر جگہ سیاستدان ایسے ہی ہوتے ہیں جو صرف اپنی ذات کے لیے جیتے ہیں اور عوام کو آپس میں لڑاتے ہیں؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاست میں اخلاقی اقدار کی کمی ہوتی جا رہی ہے، اور اقتدار کی ہوس میں سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔

"اُن کے کھاتے اندر بھی ہیں، اُن کے کھاتے باہر بھی، لوگو جن لوگوں کے لُوٹنے والوں سے سمجھوتے ہیں،" یہ اشعار کرپشن اور لوٹ مار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس ملک کو لوٹ رہے ہیں، ان کے اثاثے نہ صرف ملک کے اندر ہیں بلکہ بیرون ملک بھی ہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام بھی ان لوٹنے والوں سے سمجھوتے کر لیتے ہیں، یا پھر انہیں بے بس ہو کر دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جہاں طاقتور لوگ قانون سے بالا تر ہو جاتے ہیں، اور غریب عوام مزید غربت کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔

آخر میں، جالب کا یہ شعر، "میرے تیرے بچّے کو، چپڑاسی بھی کب بننا ہے، صدر بنیں گے وُہی، پُرانے صدروں کے جو پوتے ہیں،" نظام کی خامیوں اور موروثی سیاست پر ایک کاری ضرب ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ عام آدمی کے بچے کو تو چپڑاسی بننے کا موقع بھی مشکل سے ملتا ہے، جبکہ اقتدار کے ایوانوں میں وہی لوگ پہنچتے ہیں جو پہلے سے ہی طاقتور خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں میرٹ اور قابلیت کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ تعلقات اور وراثت ہی سب کچھ ہے۔ یہ شعر ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک جمہوری معاشرے میں رہ رہے ہیں، یا پھر ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جہاں صرف چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے؟ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمیں اپنی آنکھیں کھولنے پر مجبور کرتی ہے، اور ہمیں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ترغیب دیتی ہے۔

Sort:  

Congratulations, your post has been manually
upvoted from @steem-bingo trail

Thank you for joining us to play bingo.

STEEM-BINGO, a new game on Steem that rewards the player! 💰

Steem bingo kommetar logo.jpg

How to join, read here

DEVELOPED BY XPILAR TEAM - @xpilar.witness