میرے ہونٹوں نے تبسم کی ادا سیکھ تو لی، میری آنکھوں سے مگر گریہ و زاری نہ گئی

ایسے عالم میں گزاری کہ گزاری نہ گئی
زندگی ہم سے کسی طور سنواری نہ گئی
جب کسی بزم طربناک میں جانا چاہا
خلعت رنج و الم تن سے اتاری نہ گئی
میں اس اقلیم محبت کا ہوں شہزادہ جہاں
جز ترے اور کوئی راجکماری نہ گئی
میرے ہونٹوں نے تبسم کی ادا سیکھ تو لی
میری آنکھوں سے مگر گریہ و زاری نہ گئی
تجھ سے بچھڑے ہیں مگر عشق کہاں ختم ہوا
یہ وہ جیتی ہوئی بازی ہے جو ہاری نہ گئی
تو ہے وہ خواب جو آنکھوں سے اتارا نہ گیا
تو وہ خواہش ہے جو ہم سے کبھی ماری نہ گئی
ڈاکٹر محب وفا
کبھی کچھ اشعار دل کے دروازے پر ایسے دستک دیتے ہیں کہ انسان صرف سن نہیں پاتا، بلکہ ہر مصرعہ اپنی روح میں اُترتا محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر محب وفا کی یہ نظم کچھ ایسی ہی ہے۔ ہر شعر میں وہ کیفیت جھلکتی ہے جو بظاہر خاموش ہوتی ہے، مگر اندر کہیں بہت گہرا شور مچاتی ہے۔
پہلا شعر ہی دل کا بوجھ بن جاتا ہے — ایسے عالم میں گزاری کہ گزاری نہ گئی، زندگی ہم سے کسی طور سنواری نہ گئی — یہ ایک اعتراف ہے اُس زندگی کا جو ہم نے صرف جھیلی ہے، جی نہیں پائے۔ انسان کبھی کبھی خود کو ایک ایسا کردار محسوس کرتا ہے جو اپنی ہی کہانی میں اجنبی ہو۔ کوشش کرتا ہے کہ سب کچھ بہتر ہو، سنور جائے، مگر ہر سمت جیسے دھند ہو، ہر راستہ ایک بھول بھلیاں۔
پھر وہ لمحے آتے ہیں جب انسان خوشی کی طرف بڑھنا چاہتا ہے — جب کسی بزم طربناک میں جانا چاہا، خلعت رنج و الم تن سے اتاری نہ گئی — یعنی دل چاہتا ہے کہ مسکرا لیں، ہنس لیں، کسی محفل میں جا کر سب کچھ بھول جائیں، مگر دکھوں کا لباس اتنا چپک جاتا ہے کہ اُترتا ہی نہیں۔ جیسے غم ہماری جلد کا حصہ بن چکے ہوں۔
محبت کی بادشاہی میں شاعر خود کو ایک شہزادہ کہتا ہے — میں اس اقلیم محبت کا ہوں شہزادہ جہاں، جز ترے اور کوئی راجکماری نہ گئی — ایک خوبصورت اعتراف ہے کہ سارا جہاں ہو، مگر دل کی سلطنت صرف اُسی ایک چہرے سے آباد ہے۔ محبت کو مقام دینے والا دل جب کسی ایک ہستی میں پوری کائنات دیکھنے لگے، تو پھر باقی سب دھندلا جاتا ہے۔
میرے ہونٹوں نے تبسم کی ادا سیکھ تو لی، میری آنکھوں سے مگر گریہ و زاری نہ گئی — یہ اندر کی ٹوٹ پھوٹ کو چھپانے کی کوشش ہے، وہ مسکراہٹ جو محض رسمِ دنیا کے لیے ہے، جب کہ آنکھیں ہر وقت دل کی حقیقت بیان کرتی ہیں۔ ایک مسلسل جدوجہد ہے — خود کو سنبھالنے کی، نارمل دکھنے کی، اور شاید خود کو یقین دلانے کی کہ سب ٹھیک ہے۔
اور پھر آخری اشعار — تجھ سے بچھڑے ہیں مگر عشق کہاں ختم ہوا، یہ وہ جیتی ہوئی بازی ہے جو ہاری نہ گئی — یہ وہ سچ ہے جو ہر عاشق جانتا ہے۔ جدا ہونے سے محبت ختم نہیں ہوتی۔ بعض تعلقات کبھی مکمل نہیں ہوتے، مگر وہ زندگی میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ایک خاموش جیت جو ہار کا روپ لیے ہوتی ہے۔
تو ہے وہ خواب جو آنکھوں سے اتارا نہ گیا، تو وہ خواہش ہے جو ہم سے کبھی ماری نہ گئی — یعنی کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم جتنا بھی بھلانا چاہیں، وہ آنکھوں سے اُترتے نہیں۔ وہ خواہشیں جو وقت، فاصلوں، یا حالات سے ختم نہیں ہوتیں۔ صرف خاموش ہو جاتی ہیں، مگر زندہ رہتی ہیں۔
ڈاکٹر محب وفا کی یہ نظم محض اشعار کا مجموعہ نہیں، یہ ایک مکمل احساس ہے — درد، محبت، جدائی، اور تسلیم کا۔ وہ سچ جسے ہم سب دل میں رکھتے ہیں، مگر الفاظ میں کہنا آسان نہیں۔ اور یہی شاعری کی خوبصورتی ہے — وہ ہماری چپ کو آواز دے دیتی ہے۔
Congratulations, your post has been manually
upvoted from @steem-bingo trail
Thank you for joining us to play bingo.
STEEM-BINGO, a new game on Steem that rewards the player! 💰
How to join, read here
DEVELOPED BY XPILAR TEAM - @xpilar.witness