ہم سب کے اندر ایک مولوی چھپا ہوا ہے

in #life28 days ago

ہوا ہے، یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے، اور اس میں ایک گہری سچائی چھپی ہے۔ یہ مولوی تب ظاہر ہوتا ہے جب ہم کسی کو گناہ کرتے دیکھتے ہیں۔ یہ صرف مذہبی شخصیات کی بات نہیں، بلکہ ہر اس انسان کی بات ہے جو دوسروں کے اعمال پر فوراً فیصلہ صادر کرنے لگتا ہے۔ ہم اپنی ذات میں کتنے ہی گناہوں کے مرتکب ہوں، لیکن جب کسی اور کو دیکھتے ہیں تو فوراً ایک اخلاقی برتری کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں کو تو فوراً پکڑ لیتے ہیں، لیکن اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔ یہ وہ رویہ ہے جو ہمیں دوسروں سے دور کرتا ہے، اور معاشرے میں ایک قسم کی منافقت کو جنم دیتا ہے۔

سعادت حسن منٹو نے اسی منافقت اور مذہبی استحصال پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اتنا مذہبی بنا دو کہ وہ محرومیوں کو قسمت سمجھیں، ظلم کو آزمائش سمجھیں، حق کے لیے آواز اٹھانا گناہ سمجھیں، غلامی کو اللہ کی مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا دن معین سمجھ کر چپ رہیں۔ یہ الفاظ محض ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک کڑوی حقیقت ہیں جو ہمارے معاشرے میں آج بھی زندہ ہیں۔ جب مذہب کو صرف ایک رسم بنا دیا جائے، جب اس کی روح کو ختم کر دیا جائے، تو پھر انسان اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا بھی گناہ سمجھنے لگتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ خدا کی مرضی ہے، اور اسے صبر کرنا چاہیے۔ یہ سوچ انسان کو بے حس بنا دیتی ہے، اسے ظلم کے خلاف کھڑا ہونے سے روکتی ہے۔

منٹو کا یہ قول ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، یا پھر کسی ایسی سوچ کے غلام ہیں جو ہمیں چپ رہنے پر مجبور کرتی ہے؟ جب انسان کو یہ سکھا دیا جائے کہ اس کی محرومیاں اس کی قسمت کا حصہ ہیں، تو وہ کبھی بھی ان سے نکلنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ جب ظلم کو آزمائش سمجھ لیا جائے، تو پھر اس کے خلاف جدوجہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جہاں انسان اپنی آزادی، اپنے حقوق، اور اپنی انسانیت سے دستبردار ہو جاتا ہے

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مذہب ہمیں آزادی سکھاتا ہے، یہ ہمیں حق کے لیے کھڑا ہونا سکھاتا ہے، یہ ہمیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانا سکھاتا ہے۔ لیکن جب مذہب کو غلط طریقے سے استعمال کیا جائے، جب اسے لوگوں کو غلام بنانے کے لیے استعمال کیا جائے، تو پھر یہ ایک زہر بن جاتا ہے۔ ہمیں اپنے اندر کے اس مولوی کو پہچاننا ہوگا جو ہمیں دوسروں پر فیصلہ صادر کرنے پر اکساتا ہے۔ ہمیں منٹو کے اس قول پر غور کرنا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی مذہب ہمیں دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا سکھاتا ہے، یہ ہمیں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا سکھاتا ہے، اور یہ ہمیں اپنی انسانیت کو زندہ رکھنا سکھاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جہاں ہمیں اپنی سوچ کو آزاد کرنا ہوگا، اور اپنے اندر کی آواز کو سننا ہوگا۔ تب ہی ہم حقیقی معنوں میں ایک بہتر انسان بن سکتے ہیں، اور ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

Sort:  

Congratulations, your post has been manually
upvoted from @steem-bingo trail

Thank you for joining us to play bingo.

STEEM-BINGO, a new game on Steem that rewards the player! 💰

Steem bingo kommetar logo.jpg

How to join, read here

DEVELOPED BY XPILAR TEAM - @xpilar.witness