کمبخت تم سے اتنا بھی نہ ہو پایا

in #life6 days ago

مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں

جب لندن میں BCCI نے اپنا کاروبار بند کیا اس وقت میں اس بنک میں ڈائریکٹر تھا ۔

بنک نے الوداعی تقریب ایک شاندار ہوٹل میں کی اور تمام ڈائریکٹرز کی بیواؤں کو ایک ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان ہوا ، جب بیواؤں کو باری باری ایک ایک کروڑ دینے کے لئے بلایا جانے لگا تو میں نے زندگی میں پہلی بار سہاگنوں کو بیواؤں پر رشک کرتے ہوئے دیکھا ۔

میری زوجہ محترمہ جو میرے ساتھ ہی بیٹھی تھیں انتہائی ناگواری سے میری طرف دیکھتے ہوئے گویا کہہ رہی ہوں کہ"کمبخت تم سے اتنا بھی نہ ہو پایا"

مشتاق احمد یوسفی کی تحریر کا خاص کمال یہ ہے کہ وہ ہنسی کے پردے میں زندگی کی ایسی سچائیاں پیش کرتے ہیں جن پر قاری پہلے تو مسکراتا ہے، اور پھر چپ چاپ سوچنے لگتا ہے۔ اُن کا یہ جملہ کہ "میں نے زندگی میں پہلی بار سہاگنوں کو بیواؤں پر رشک کرتے ہوئے دیکھا"، محض ایک طنزیہ فقرہ نہیں، بلکہ معاشرتی رویوں، انسانی حرص، اور رشتوں کی پیچیدگیوں کا ایک مکمل منظرنامہ ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ بیوائیں، جن کا دکھ سب سے زیادہ سمجھا جاتا ہے، اُس لمحے معاشرے کی سب سے خوش نصیب عورتیں بن جاتی ہیں — کیونکہ اُن کے حصے میں ایک کروڑ روپے آتا ہے۔ اور سہاگنیں، جنہیں بظاہر خوش قسمت مانا جاتا ہے، اُس رقم کو دیکھ کر رشک میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ یہ منظر کچھ ایسا ہے کہ بیک وقت قہقہہ بھی نکلتا ہے اور اندر کچھ خالی سا بھی محسوس ہوتا ہے۔

یہ طنز صرف عورتوں پر نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے اس مادی رویے پر ہے جہاں ہر چیز کا حساب روپے پیسے سے لگایا جاتا ہے۔ چاہے وہ موت ہو یا وفاداری، چاہے وہ رشتہ ہو یا قربانی — آخر میں پوچھا یہی جاتا ہے کہ “کیا ملا؟”۔ اور جب "بیوگی" ایک کروڑ کا چیک بن جائے، تو محبت، ساتھ، اور رفاقت جیسے الفاظ صرف شاعری کے لئے رہ جاتے ہیں۔

یوسفی صاحب کا یہ انداز کہ زوجہ محترمہ خاموشی سے انہیں ایسی نظر سے دیکھ رہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں: "کمبخت! تم سے اتنا بھی نہ ہو پایا" — ایک جملے میں شادی شدہ زندگی کا وہ پہلو بیان کر دیتا ہے جسے اکثر صرف شوہر ہی محسوس کر پاتا ہے۔ ایک نظر، ایک سانس، ایک خاموش شکوہ، جس میں نہ خالص غصہ ہوتا ہے نہ حسد — بس ایک تلخ طنز ہوتا ہے، جو سیدھا دل کے آر پار ہو جاتا ہے۔

یہ واقعہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ رشتے اپنی اصل معنویت کھو رہے ہیں۔ جہاں محبت کے پیمانے خلوص سے نہیں، مالی فائدے سے تولے جانے لگیں، وہاں سہاگ اور بیوگی دونوں اپنی روحانی تعریف سے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ ایک تلخ مزاح ہے، جو بظاہر ہنسا دیتا ہے مگر اندر کہیں اداس بھی کر دیتا ہے۔

شاید یہی یوسفی صاحب کا فن ہے — ہنسی ہنسی میں وہ انسان کے اندر کی دنیا کو آئینہ دکھا دیتے ہیں۔ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم سب اپنا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پہچان لیتے ہیں، چاہے وہ رشک ہو، بے بسی، یا محض ایک شرارتی سا خیال۔ اور یہی تحریر کا اصل جادو ہوتا ہے — کہ وہ قاری کو خود اُس کی سوچ سے آشنا کر دے، ہنسی کی آڑ میں ایک ایسی چپ لگا دے جو دیر تک ساتھ رہتی ہے۔

Sort:  

Congratulations, your post has been manually
upvoted from @steem-bingo trail

Thank you for joining us to play bingo.

STEEM-BINGO, a new game on Steem that rewards the player! 💰

Steem bingo kommetar logo.jpg

How to join, read here

DEVELOPED BY XPILAR TEAM - @xpilar.witness