شاید وہ دن تب آئے گا جب ہم رسموں سے ہٹ کر رشتوں کو سمجھیں گے

in #life3 days ago

ہمارے ہاں شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی دونوں سے اُن کی مَرضی پُوچھی جاتی ھے. ہاں کریں تو شادی کر دی جاتی ہے ۔ اور اگر وہ نہ کریں تو بھی کردی جاتی ھے.

‏"مشتاق احمد یُوسفی"

مشتاق احمد یوسفی کا اندازِ بیان ہمیشہ ایسا رہا ہے کہ سننے والا یا پڑھنے والا ہنسی میں لپٹے سچ کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اوپر دیا گیا جملہ بھی ایک ایسا ہی آئینہ ہے جس میں ہمارا معاشرتی رویہ پوری حقیقت کے ساتھ جھلکتا ہے۔ ظاہری طور پر تو لگتا ہے کہ ہم لڑکے اور لڑکی دونوں سے مرضی پوچھتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُن کی ہاں یا ناں کا کوئی خاص وزن نہیں ہوتا۔ فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے، اور مرضی کا سوال صرف ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس وقت لڑکے یا لڑکی سے "مرضی" پوچھی جاتی ہے، اُس وقت ماحول ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہاں کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کبھی ماں باپ کی امیدیں، کبھی خاندان کی عزت، کبھی بہن بھائیوں کے رشتے، اور کبھی صرف یہ احساس کہ انکار کرنا گستاخی کے زمرے میں آ جائے گا۔ وہ خاموش ہاں، جو دراصل "نہ" ہوتی ہے، اکثر ایک پوری زندگی کو متاثر کر دیتی ہے۔

یہ بات دونوں کے لیے یکساں ہے۔ لڑکوں سے بھی یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ خاندان کی عزت، ماں باپ کی خواہش، اور بڑے بزرگوں کے فیصلوں کے آگے سر جھکا دیں۔ اور لڑکیوں کا تو معاملہ اور بھی نازک ہوتا ہے۔ اُن کی مرضی تو اکثر گھر کے دوسرے کمرے میں پڑی رہ جاتی ہے، جب اُن کے لیے رشتہ دیکھا جا رہا ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب شادی کے بعد کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تو یہی لوگ جو پہلے "مرضی" کا تاثر دے رہے تھے، فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ تمہارا اپنا فیصلہ تھا۔ یعنی پہلے جبری ہاں کرائی جاتی ہے، اور بعد میں سارا بوجھ انہی کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے جنہیں اپنی آواز کا استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی تھی۔

یہ نظام ایک خاموشی کی زنجیر ہے، جو نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ اور سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم سب اس خاموشی کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہی طریقہ ہے، یہی روایت ہے، اور اس سے ہٹنا گستاخی ہے۔ حالانکہ شادی جیسا فیصلہ، جو پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے، اُس میں انسان کی اصل مرضی کو سنجیدگی سے لینا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ایک بنیادی حق ہے۔

یوسفی صاحب نے جس مزاحیہ انداز میں یہ تلخ حقیقت بیان کی ہے، وہ دراصل ایک سوال ہے — ہم کب سچ میں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے ان کی مرضی پوچھنا سیکھیں گے؟ کب اُن کی بات کو صرف رسمی طور پر نہیں بلکہ ایک سنجیدہ رائے کے طور پر لیں گے؟

شاید وہ دن تب آئے گا جب ہم رسموں سے ہٹ کر رشتوں کو سمجھیں گے، اور مرضی کو محض لفظ نہیں بلکہ احساس، اختیار، اور احترام کا نام دیں گے۔ اور جب ایسا ہوگا، تب شاید ہماری نسلیں اپنے فیصلوں پر واقعی خوشی اور فخر محسوس کر سکیں گی۔

Sort:  

Congratulations, your post has been manually
upvoted from @steem-bingo trail

Thank you for joining us to play bingo.

STEEM-BINGO, a new game on Steem that rewards the player! 💰

Steem bingo kommetar logo.jpg

How to join, read here

DEVELOPED BY XPILAR TEAM - @xpilar.witness