یہ محض ایک جملہ نہیں — یہ ایک صدیوں سے پھیلے ہوئے اندھے انصاف کے خلاف احتجاج ہے

in #life19 hours ago

1000100512.jpg

منٹو نے جب یہ بات کہی تھی، وہ صرف ایک جملہ نہیں تھا، بلکہ ایک پورے معاشرے پر آئینہ پھینکا تھا۔ طوائف — ایک ایسا لفظ جو سنتے ہی ذہن میں حقارت، بدنامی، اور گناہ کا تصور ابھرتا ہے۔ مگر منٹو نے ہمیشہ اُس پردے کے پیچھے جھانکنے کی کوشش کی جسے دنیا نے اپنی آنکھوں پر ڈال رکھا ہے۔ انہوں نے وہ دکھ بیان کیے جو چہرے سے نہیں، صرف روح سے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اور یہی جملہ — کہ طوائف ایک مظلوم عورت ہے جس پر ہزاروں مردوں نے اپنی عزت کی دھجیاں اڑائیں، مگر اسے کبھی عزت نہ دی — حقیقت میں ہم سب کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔

یہ عورت، جسے دنیا "طوائف" کہہ کر حقارت سے دیکھتی ہے، اس کا اصل چہرہ ہم میں سے بہت کم نے جاننے کی کوشش کی۔ ہم صرف اس کی راتوں کو جانتے ہیں، اُس کے ہونٹوں پر سجائے گئے مصنوعی تبسم کو دیکھتے ہیں، مگر اُس دل کی چیخیں کبھی نہیں سنتے جو دن کے وقت سونے کی کوشش میں بھی جاگتا رہتا ہے۔ یہ عورت، جو ہر رات کسی اور کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہے، اُس کی اپنی خواہشات، خواب، اور عزت کیوں دنیا کے لیے بے معنی ہو جاتے ہیں؟

منٹو نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر مرد اپنی خواہش کے لیے کسی کے جسم کا سودا کر سکتا ہے، تو وہ جسم صرف "ذریعہ" کیوں رہ جاتا ہے؟ عزت کا پیمانہ صرف عورت کے لیے کیوں ہے؟ اور اگر وہی عورت، اپنے وجود کے ساتھ روز معاشرے کی منافقت کا سامنا کرے، تو کیا ہم واقعی انصاف پسند ہیں؟

طوائف کو ہمیشہ گناہ کی علامت سمجھا گیا، مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ اُس گناہ کے لیے کتنی بار خود کو مار چکی ہے۔ کبھی حالات نے اسے مجبور کیا، کبھی معاشرتی جبر نے، اور کبھی اُسی "معزز" مرد نے جو دن میں اُس کی برائی کرتا ہے اور رات کو اُس کے در پر ہوتا ہے۔ طوائف وہ کردار ہے جو خود نہیں بنتی، اُسے بنایا جاتا ہے — غربت، بھوک، بے بسی اور بعض اوقات ماں باپ کی بے نیازی اُسے وہاں لے جاتی ہے جہاں سے واپسی کے دروازے نہیں ہوتے۔

منٹو کا دکھ یہی تھا کہ ہم جسم کو استعمال کرنا جانتے ہیں، مگر اُس جسم کے اندر موجود انسان کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہمیں خواہش کی بھوک تو دکھائی دیتی ہے، مگر وہ روح جو ہر رات زخمی ہو کر بھی جیتی ہے، اُس پر نظر ڈالنے کی ہمت ہم میں نہیں ہوتی۔

منٹو کی یہ سچائی آج بھی زندہ ہے۔ اور جب تک ہم اپنے نظریات اور سوچ کے معیار بدل کر، انسان کو اُس کی مجبوریوں سمیت دیکھنا نہیں سیکھیں گے، تب تک نہ ہم منٹو کو سمجھ سکیں گے، نہ اُس طوائف کو جو دن رات زندگی سے لڑ کر بھی عزت کی ایک نظر کو ترس جاتی ہے۔

یہ محض ایک جملہ نہیں — یہ ایک صدیوں سے پھیلے ہوئے اندھے انصاف کے خلاف احتجاج ہے۔ اور یہ احتجاج اُس دن تک جاری رہے گا جب تک ہم عزت کو کردار کے بجائے پیشے سے جوڑتے رہیں گے۔

Posted using SteemX